Why Were the People of Prophet David Turned into Monkeys?

Why-Were-the-People-of-Prophet-David-Turned-into-Monkeys?

Why Were the People of Prophet David Turned into Monkeys?

This story is about why the people of Prophet David (Dawood, peace be upon him) were turned into monkeys. It happened because they didn’t follow Allah’s rules. It’s an important story in Islam and teaches us about what can happen when we’re disobedient and ungrateful.

Prophet David and his people lived in a village called Aila, by the sea. They had many blessings, like lush gardens and good crops. They were faithful and followed Allah’s commands, which made them very successful and happy.

 

READ IN URDU BELOW

حضرت داؤد کی قوم بندر کیوں بنی

انسانوں کے بندر بننے کی ابتدا حضرت داؤد علیہ السلام کے دور سے ہوئی اس واقعے کا پس منظر کچھ یوں ہے حضرت داؤد علیہ السلام اور ان کی قوم سمندر کے کنارے ایلا نامی گاؤں میں رہتے تھے اور ان کی تعداد 70 ہزار کے قریب تھی یہ قوم بڑی ہی خوشحال تھی اور اللہ تبارک و تعالی کے فرمانبردار قوم تھی اس قوم کو اللہ تبارک و تعالی نے بے شمار نعمتوں سے نوازا تھا ہر طرف سرسبز و شاداب باغات اور ہر طرف ہریالی ہی ہریالی تھی.

اور اللہ تبارک و تعالی کی بے پناہ کرم نوازے تھے یہ لوگ اپنی اس زندگی میں بہت ہی خوش تھے حضرت داؤد علیہ السلام کی قوم چونکہ سمندر کے کنارے رہتی تھی تو اللہ تبارک و تعالی کا ان پر یہ خاص کرم تھا کہ سمندر کے اس کنارے پر بے پناہ مچھلیاں آتی تھیں جن کا یہ لوگ کاروبار کرتے تھے اور بہت ہی خوشحالی والی زندگی گزارتے تھے جب یہ قوم اللہ تبارک و تعالی کی نعمتوں کی وجہ سے خوشحال ہو گئی تو اللہ تبارک و تعالی کی نافرمانی پر اتر آئی.

اور طرح طرح کے گناہوں کے اندر مبتلا ہو گئی اور پھر ایک دن اللہ تبارک و تعالی نے اس قوم کا امتحان لینے کا ارادہ کیا اور حضرت داؤد علیہ السلام کو وحی بھیجی کہ اپنی قوم سے کہہ دیں کہ وہ ہفتے والے دن مچھلی کا شکار کرنا بند کر دیں جس طرح اللہ تبارک و تعالی نے حضرت داؤد علیہ السلام کی قوم پر ہفتے والے دن مچھلیوں کا شکار حرام فرما دیا اور پھر یہاں سے اس قوم کی بربادی شروع ہو گئی حضرت داؤد علیہ السلام نے اپنی قوم کو بتایا کہ اللہ تبارک و تعالی نے ہفتے والے دن مچھلیوں کے شکار کو حرام قرار دے دیا ہے.

تو وہ لوگ بہت ہی زیادہ پریشان ہو گئے اور ساری قوم سر جوڑ کر بیٹھ گئی کیونکہ ہفتے کا دن ہی وہ دن تھا جس میں مچھلیاں وافر مقدار میں آتی تھی اور خود بخود کنارے پر آ جاتی تھی اور باقی دن ایسے تھے کہ بہت کم اور نہ ہونے کے برابر مچھلیاں پکڑی جاتی تھی اس قوم کا گزر بسر چونکہ مچھلیوں کے شکار پر تھا اس وجہ سے اللہ تبارک و تعالی کا یہ حکم سن کر یہ قوم پریشان ہو گئی یہ نہیں جانتے تھے کہ اللہ تبارک و تعالی کی طرف سے یہ ایک آزمائش ہے پھر ایک دن شیطان نے ان کو وسوسہ ڈالا کہ سمندر سے نالیاں نکال کر خشکی میں بڑے بڑے حوض بنا لیے جائیں جب ہفتے والے دن مچھلیاں آئیں گی تو وہ نالیوں سے ہو کر ان بڑے بڑے موضوعوں میں آ جائے گی اور اس طرح پھر ان نالیوں کا منہ بند کر دیا جائے اور پھر اگلے دن یعنی اتوار والے دن ان کو پکڑ لیا جائے.

شیطان نے اس قوم کے لوگوں کو ورغلایا کہ اس طرح ہم ہفتے والے دن شکار سے بھی بچ جائیں گے اور مچھلیاں بھی ہاتھ آ جائیں گی اور وہ بھی پکڑی جائیں گی بہت سے لوگوں کو یہ ہلا بازی اچھی لگی اور انہوں نے ایسا کرنا شروع کر دیا اور سمندر سے چھوٹی چھوٹی نالیاں نکال کر بڑے بڑے حوضوں میں ڈال دی جس کے ذریعے وافر مقدار میں مچھلیاں ان حوضوں میں داخل ہو جاتی اس قوم کے بدبخت لوگوں کو شیطان کا کام بہت پسند آیا لیکن اس قوم نے یہ نہ سوچا کہ جب مچھلیاں سمندر سے ہوض میں آ کر قید ہو گئی.

تو پھر مچھلیوں کا شکار ہی ہو گیا اس لیے انہیں شکار بھی ہفتے والے دن ہی قرار پایا جو اللہ تبارک و تعالی نے حرام قرار دیا تھا اس موقع پر یہودیوں کے تین گروہ ہو گئے کچھ لوگ ایسے تھے جو شکار کے اس شیطانی حلے سے منع کرتے تھے اور ناراض و بیزار ہو کر شکار سے باز رہے اور کچھ لوگ اس کام کو دل سے برا جان کر خاموش رہے لیکن انہوں نے شکار نہ کیا اور دوسروں کو منع بھی نہ کرتے تھے بلکہ یہ لوگ منع کرنے والوں سے یہ کہتے تھے کہ تم لوگ ایسی قوم کو نصیحت کرتے ہو جنہیں اللہ تبارک و تعالی عنقریب ہلاک کرنے والا ہے اور ان پر اپنا دردناک عذاب نازل فرمانے والا ہے.

اور اس قوم کے کچھ لوگ ایسے تھے جو نافرمان لوگ تھے جنہوں نے اللہ تبارک و تعالیٰ کے حکم کو رد کر کے ہفتے والے دن مچھلیوں کا شکار کر کے ان کو کھایا کرتے اور بیچا کرتے حضرت داؤد علیہ السلام کے قوم کے 1200 ایسے نافرمان افراد تھے جو منع کرنے کے باوجود بھی ہفتے کو ان نالیوں کے ذریعے شکار کرتے رہے حضرت داؤد علیہ السلام نے ان 1200 نافرمانوں کو اللہ تبارک و تعالی کے عذاب سے ڈرایا کہ وہ اللہ تبارک و تعالی کے اس نافرمانی سے باز آ جائیں لیکن وہ لوگ باز نہ آئے اور کھلے عام شکار کرنے لگے چنانچہ وہ لوگ جو اس بات کو برا جانتے تھے ان لوگوں نے اپنے اور ان نافرمانوں کے درمیان ایک دیوار کھڑی کر دی تھی جس کی ایک طرف وہ 1200 نافرمان رہتے تھے.

اور دوسری طرف وہ لوگ تھے جو شکار سے باز رہے حضرت داؤد علیہ السلام نے اپنی اس قوم کے نافرمانوں کو بار بار سمجھایا لیکن یہ لوگ اپنی نافرمانی سے باز نہ آئے اور اسی طرح اللہ تبارک و تعالی کی نافرمانی کرتے رہے اور شکار کرتے رہے پھر ایک دن حضرت داؤد علیہ السلام نے غضب ناک ہو کر شکار کرنے والوں پر لعنت فرما دی اس کا اثر یہ ہوا کہ ایک دن خطا کاروں میں سے کوئی بھی اپنے گھر سے باہر نہ نکلے.

یہ منظر دیکھ کر کچھ لوگ ان کی دیواروں پر چڑھ گئے تاکہ معلوم ہو سکے کہ وہ لوگ کس حال میں ہیں جب ان لوگوں نے ان نافرمانوں کو دیکھا تو وہ سب کے سب بندر کی صورت میں مسخ ہو چکے تھے اللہ تبارک و تعالی نے ان کی نافرمانی کی وجہ سے ان پر اپنا دردناک عذاب نازل فرمایا اور ان کو انسانوں سے بندر بنا دیا جب لوگ ان مجرموں کا دروازہ کھول کر ان کے گھر میں داخل ہوئے تو وہ بندر اپنے رشتہ داروں کو پہچانتے تھے اور ان کے پاس آ کر ان کے کپڑوں کو سونگتے تھے اور زار و قطار روتے تھے

 

 

The people in the village by the sea had it all. They caught lots of fish, and life was good. They respected God’s rules and lived peacefully with nature.

However, they got too comfortable and started being proud. They began taking God’s gifts for granted and stopped following His teachings. God saw this change in their behavior.

To remind them, God said they should not fish on the Sabbath, the seventh day of the week. He wanted to see if they would obey Him. But fishing was best on that day, and their love for money and worldly things grew stronger than their love for God.

On the Sabbath, the fish came closer to the shore than ever, as if testing their faith. The people couldn’t resist and broke God’s rule. They thought they could outsmart Him, but they were wrong.

Allah was patient with them, but when they kept breaking His rule, He decided to teach them a big lesson. On the Sabbath, the day they weren’t supposed to fish, something amazing happened. The fish they were trying to catch turned into monkeys. These monkeys jumped around and made noise, just out of their reach.

The people of Aila were shocked and amazed by this transformation. They used to be prosperous and obedient to Allah, but now they were like a show of monkeys. This was because of their pride, disobedience, and lack of gratitude for Allah’s rules.

Turning into monkeys was a punishment from Allah. It was a way to show the people that when you ignore Allah’s guidance. And care more about money than doing what’s right, there are consequences. This story reminds us that we should be humble, grateful, and follow Allah’s rules. It’s a strong lesson that being arrogant, disobedient. And ungrateful can bring down even the most blessed and successful communities.